چراغ اپنی وفا کے جلا کے جاؤں گا |
میں خون اپنے جگر کا بہا کے جاؤں گا |
میں ڈھونڈنے اسے شہرِ سبا کو جاؤں گا |
میں ابنِ قیس ہوں سب کچھ لٹا کے جاؤں گا |
میں تخت کیسے منگاؤں میں کوئی شاہ نہیں |
فقیرِ شہر ہوں خود کو مٹا کے جاؤں گا |
نہ میں سکندرِ اعظم کہ لوگ جھک جائیں |
میں اس کے شہر میں سر کو جھکا کے جاؤں گا |
کٹھن سفر ہے مگر ہارنا نہیں سیکھا |
میں کشتیاں سبھی اپنی جلا کے جاؤں گا |
میں اس کے عشق میں منصور ہو گیا شاہد |
چلا تو جاؤں گا پر سر کٹا کے جاؤں گا |
معلومات