آگِ دل سلگتی ہے آگ یہ بجھانی ہے |
تم برا نہیں مانو کیا کروں جوانی ہے |
فرق اب نہیں پڑتا آندھیوں کے آنے سے |
تیرے نام کی ہم کو شمع اک جلانی ہے |
تو رگوں میں بہتا ہےاس طرح لہو بن کر |
تم مگر حقیقت کو کہتے ہو کہانی ہے |
چاک ہے جگر اور دل ہے لہو لہو میرا |
آنکھ سے جو ٹپکے تو کہتے ہو کہ پانی ہے |
ہم مریضِ دل اپنا دل کا تحفہ لائے ہیں |
تیرے در پہ ہو مقبول ایسی خوش گمانی ہے |
پر خطر ہیں راہیں پر دور میری منزل ہے |
راستے نہ ہونگے ختم گر جہاں یہ فانی ہے |
ہم ترے ہیں دیوانے موت سے نہیں ڈرتے |
مر کے بھی نہ مٹ پائے ایسی زندگانی ہے |
دھڑکنیں بھی سانسیں بھی تیری مالا جپتی ہیں |
تھام کے جو دل بیٹھوں تیری حکمرانی ہے |
تم نہیں سمجھ پائے میں نے جو کہا کیا ہے |
تم جسے غزل سمجھے یہ تو چھیڑ خوانی ہے |
معلومات