آگِ دل سلگتی ہے آگ یہ بجھانی ہے
تم برا نہیں مانو کیا کروں جوانی ہے
فرق اب نہیں پڑتا آندھیوں کے آنے سے
تیرے نام کی ہم کو شمع اک جلانی ہے
تو رگوں میں بہتا ہےاس طرح لہو بن کر
تم مگر حقیقت کو کہتے ہو کہانی ہے
چاک ہے جگر اور دل ہے لہو لہو میرا
آنکھ سے جو ٹپکے تو کہتے ہو کہ پانی ہے
ہم مریضِ دل اپنا دل کا تحفہ لائے ہیں
تیرے در پہ ہو مقبول ایسی خوش گمانی ہے
پر خطر ہیں راہیں پر دور میری منزل ہے
راستے نہ ہونگے ختم گر جہاں یہ فانی ہے
ہم ترے ہیں دیوانے موت سے نہیں ڈرتے
مر کے بھی نہ مٹ پائے ایسی زندگانی ہے
دھڑکنیں بھی سانسیں بھی تیری مالا جپتی ہیں
تھام کے جو دل بیٹھوں تیری حکمرانی ہے
تم نہیں سمجھ پائے میں نے جو کہا کیا ہے
تم جسے غزل سمجھے یہ تو چھیڑ خوانی ہے

0
1
48
کوئی اگر اصلاحی نظر ڈال دے

0