ہم ابھی آ کے ترے گھر پہ نِرے بیٹھے ہیں |
ایسے لگتا ہے کہ دن اپنے پھرے بیٹھے ہیں |
دشت میں دھونی رمائے ترے یہ سودائی |
جیب و دامن بھی ہیں گو ان کے چِرے بیٹھے ہیں |
آ گئے چھوڑ کے دنیا کے تماشے سارے |
سارے عالم سے ہی کچھ دن سے پھرے بیٹھے ہیں |
پھر ہوئی پوری تمنّا ترے گھر آئے ہیں |
تیری دہلیز پہ سر رکھ کے گرے بیٹھے ہیں |
کھینچ لائی ہے انہیں پیار بھری تیری نظر |
تیرے بندے جو یہاں در پہ ترے بیٹھے ہیں |
دل نہیں قابو دھڑکتا ہے تو رُک جاتا ہے |
اشک پلکوں سے جو پل پل ہیں گرے بیٹھے ہیں |
تُو ہے بس ایک یہاں لاکھ ہیں پروانے ترے |
ہم ترے پاس بھی لوگوں سے گھِرے بیٹھے ہیں |
بھیج اب ہاتھ پکڑنے کو فرشتے اپنے |
ہم یہاں آ کے بھی رستے کے سرے بیٹھے ہیں |
تیری آغوش کی گرمی میں سکوں پایا ہے |
ورنہ لگتا تھا کہ جذبات ٹھِرے بیٹھے ہیں |
بخش دے میرے خدا سارے گنہ امّت کے |
چھوڑ کر تُجھ کو کہیں اور گِرے بیٹھے ہیں |
آ کے کعبے میں بھی طارق نہ ہوئی گر بخشش |
پھر عدُو ہنسنے کو رستے میں مرے بیٹھے ہیں |
معلومات