چاہت وہ جو نبھائی جائے
دل میں بھی جو سمائی جائے
سچے دوست نصیب سے ہیں
ساتھی پیارے حبیب سے ہیں
شدت غم کو غلط ہونے دے
زخموں کو مت ہرا ہونے دے
کوئی تو چاہئے جو دکھ میں
خوشی لائے بھی پر جو مکھ میں
تنہائی چیز ہے بری بھی
لاتی ہے وسوسہ خفی بھی
محفل سجتی رہی ہے جب جب
راحت ملتی گئی ہے تب تب
کیا ناصر بھول پا سکیں گے
یادوں کو بھی دبا سکیں گے

0
65