گلدستہِ اذاں پر اک نو جواں کھڑا ہے |
اک آس ڈوبتی ہے اک باپ نوحہ خواں ہے |
یہ وہ جواں ہے جو ہے ہم شیر کا سہارا |
مادر کے دل کا محور تسکیں کا استعارا |
اب یہ چراغِ ہستی گل جو کہ ہو رہا ہے |
اس نو جواں کے دم سے ہے زندگی کا مقصد |
بعد اس جری کے ہوگا کیا زندگی کا مقصد |
غم میں بجھی ہوئی یہ اک باپ کی صدا ہے |
لو کر رہے ہیں اکبر اب ابتدا اذاں کی |
احمد کی روح پر ہو صلوات کبریا کی |
اللہ منتظر ہے جس کا یہ وہ اذاں ہے |
کربل میں ہو رہی ہے یہ رونما قیامت |
یثرب میں ٹوٹتی ہے صغرہ کے دل کی حاجت |
رکتی ہیں اس کی سانسیں دل اس کا بیٹھتا ہے |
صغرہ بھی سن رہی ہے آواز اس اذاں کی |
ہے بوجھ دل پہ ایسا جیسے انی سنا کی |
بھائی کی یاد میں وہ بیمار نیم جاں ہے |
اک وہم دل میں بیٹھا ہے اس طرح سے یارب |
اک خواب دیکھتی ہوں سوتی ہوں رات میں جب |
اک نو جواں کے دل میں برچھی ہے یا سنا ہے |
دینے لگے گواہی احمد کی جب کہ اکبر |
چھوڑی لحد نبی نے برپا ہوا تھا محشر |
قدرت میں اک طلاطم اس بات سے بپا ہے |
سنتی رہی ہے صغرہ آذاں ہوئی مکمل |
اکبر کی یاد میں ہے وہ موت پر بھی مائل |
گویا کہ اس کے دل میں اک فرد مر گیا ہے |
صغرہ تو مرگئی ہے یادِ پدر کی دھن میں |
میت تیار رکھی ہے نخلِ پنجتن میں |
اکبر نے جو کہی ہے میت کی یہ اذاں ہے |
بس اب کہ اس قلم میں طاقت نہیں ہے حیدر |
جرئت ہے یہ کسی میں ہو ان غموں کا یاور |
ہر آنکھ نم ہوئی ہے خدمت کا یہ صلا ہے |
معلومات