| دل بےتاب ہے تو پژمردگی ہے جہاں میں | 
| جس کی طلب میں تھی آنکھ وہ ہی نہیں کارواں میں | 
| کوئے جاناں میں محض میں ہی مجنوں نہیں ہوں | 
| پھر رہا چاند بھی کیسے مضطرب آسماں میں | 
| میں نے تیرے نشتر بھی ہیں سنبھال رکھے | 
| دیکھ پڑی ہیں تری سبھی چٹھیاں اس مکاں میں | 
| خواب مرے یوں بے بس ہیں خانہ دل میں | 
| جیسے کوئی قیدی قید ہو زنداں میں | 
| کون رکھے گا یاد اس کی قربانیوں کو | 
| ایسا شجر جو وفائیں لُٹاتا رھے ویراں میں | 
| گرتے پتوں کی آہٹ تک سننے والے | 
| ہو گئے ہیں کیوں وہ بے خبر ایسے سماں میں | 
| مت کر دیر اب آ بھی جا ؔبارق بن کے | 
| تاکہ اندھیرا ختم ہو جائے بیاباں میں | 
 
    
معلومات