وہ بتکلف مُسکاں سجا رکھنا مشکل ہے
بارِ رواداری کو اُٹھا رکھنا مشکل ہے
صحرا میں مشکل ہے گر نخلِ زار بسانا
گلشن میں بھی سراب، بنا رکھنا مشکل ہے
ہے لبریز یہ جام نہ جائے چھلک غلطی سے
قِشرِ زمیں میں لاوا، دبا رکھنا مشکل ہے
آساں خبر گیری نہیں کہکشاں کل کی رکھنا
آنکھوں سے تیرے دل کا پتا رکھنا مشکل ہے
اے شاعر کہ ہے ڈول رہا پھر تیرا سخن کیوں؟
مَشق ہے کم ابھی اوزاں بَنا رکھنا مشکل ہے
شکنیں ہیں پڑتیں لہروں سے گر ساحل کی جبیں پر
موج ِ سمندر کو تو سدھا رکھنا مشکل ہے
کر نہیں پاتے ترکِ عشق کا روزہ اِفطار
عزم سے شش و پنج بچا رکھنا مشکل ہے
ریت پے خواہشوں سے کر کے تعمیر گھروندے
باد سے پھر اُمیدِ وفا، رکھنا مشکل ہے
مہؔر ضروری ہے اب، سانس کے جیسے وہ بھی
زات سے اپنی اُسے تو جدا رکھنا مشکل ہے
------٭٭٭------

0
63