کھو چکے دل تو بھلا اور ہمیں کھونا کیا ہے
سینہ خالی دلِ بیمار کا رونا کیا ہے
باعثِ فخر ہے محرومیٔ آزارِ حیات
فکر و فاقہ ہی نہیں عشق کا ہونا کیا ہے
زیورِ عقل سے محروم ہوئے مجنوں جب
ان کے نزدیک محل باغ بچھونا کیا ہے
جوہری جانتا ہے کون سا ہے اصلی گہر
سامنے اس کے بھلا چاندی و سونا کیا ہے
داغ جب اس پہ نہیں کوئی محبّت کے سوا
دامن اُجلا ہے تو رو کے اسے دھونا کیا ہے
طارق آزادیٔ دل عشق کا باعث تو نہیں
ہجر کا بوجھ ہے اس کے سوا ڈھونا کیا ہے

0
21