یاد بچپن کی ہے آئی دل لُبھانے کے لئے |
غم کے ماروں کے غموں کو اب مِٹانے کے لئے |
ہر سَماں کتنا سُہانا تھا تصور تو کرو |
فصلِ گُل میں بُلبُلیں تھیں چہچہانےکے لئے |
نیند آتے ہی چلے جاتے تھے ماں کی گود میں |
وہ سُناتی ہم کو لوری پھر سُلانے کے لئے |
خوبصورت خواب سی تھی زندگی بچپن کی وہ |
کون آیا خواب سے ہم کو جگانے کے لئے |
ہم زمانے کی سبھی فکروں سے یوں آزاد تھے |
بس بہانہ چاہئے تھا مُسکرانے کے لئے |
بھوک لگنے پر ہمارے ناز اُٹھتے تھے ہزار |
تر نوالے ہم کو ملتے روز کھانے کے لئے |
مار پڑتی جب بھی اُلٹی حرکتیں کرتے تھے ہم |
روز ہم تیار ہوتے مار کھانے کے لئے |
وقت اچھا یاد کر کے خوش رہو تم ہر گھڑی |
زخم دل کے ہیں سبھی تو بھول جانے کے لئے |
مان لی یہ بات کیوں کر؟ یادِ ماضی ہے عذاب |
ہے غزل زیرکؔ کی یارو کُچھ سِکھانے کے لئے |
معلومات