مجھ میں جو آدم تھا جانے کیا ہــوا اس کو
جسم کے ملبے میں اب تم ڈھونڈنا اس کو
عمر بھر اس کج روا نے بے رخی برتی
عمر بھر دیتا رہا کوئی صدا اس کو
وہ جو تم تھے کاش مل جاتے کبھی مجھ کو
وہ جو میں تھا کاش پھر میں دیکھتا اس کو
کون مجھ میں سوچتا ہی رہتا ہے پیہم
مجھ کو فرصت ملتی میں بھی سوچتا اس کو
یہ کرشمہ ہے وہ مجھ کو مل گیا لیکن
مجھ کو یہ شرمندگی ہے میں ملا اس کو
اس کی خوشبو جو خفا ہے اس چمن سے اب
کس چمن لہراتی ہے بادِ صبا اس کو
یہ محبت اپنی مرضی سے ہی چلتی ہے
یہ عجب اک آگ ہے مت دو ہَوا اس کو
وہ نہ آیا لوٹ کر اس پر گلہ کیا ہو
مل گیا ہوگا کوئی پھر دوسرا اس کو
یاد اس کو میری صورت بھی نہیں ہے اب
کیا دلاؤں یاد میں عہدِ وفا اس کو

100