رات جب آ جائے تاریکی کا سایا اوڑھ کر |
غم ڈھلیں خوشیوں میں سپنوں کا لبادہ اوڑھ کر |
کیسے پہچانیں انہیں، ہم سے بھی ہیں سادہ کئی |
لوگ ملتے ہیں یہاں چہرے پہ چہرہ اوڑھ کر |
حسن ، قدرت نے دیا جو وہ کبھی چھپتا نہیں |
کیا سجیں گے سچ چھپا کر ، جھوٹا غازہ اوڑھ کر |
لوگ ساحل پر نظر آتے ہیں قدرت سے قریب |
ہے غنیمت آ گئے جو تن پہ کپڑا اوڑھ کر |
کر دیا قدرت نے پردے کا یہاں کچھ انتظام |
چھپ گیا ہے شہر سب ، پانی برستا اوڑھ کر |
یوں تو کہلاتے ہیں وہ ایمان والے پر انہیں |
ہم نے دیکھا بھاگتے میداں سے بُر قع اوڑھ کر |
فیض وہ پائے گا آخر جس سے پایا سب نے فیض |
پاؤں پھیلاتا رہا چادر کشادہ اوڑھ کر |
سارا دھن دولت یہیں رہ جائے گا طارق ہمیں |
ایک دن سونا ہے بس مٹّی کا پردہ اوڑھ کر |
معلومات