محبت یوں نہیں ہوتی
کہ جس کو کچے زہنوں سے بھی ہم تم جان لیتے ہیں
کسی بے نام جزبے کو محبّت مان لیتے ہیں
محبّت ٹوٹنے اور درد کو سہنے کی عادت ہے
ستم یہ ہے کہ کہتے ہیں یہ بس “چُپ “ کی عبارت ہے
محبّت الجھی سلجھی خواہشوں سے کچھ پَرے ہٹ کر، خودی کو مار دینا ہے
محبّت چھوڑنا ہے ہر تمّنا ، اصلِ حاصل ہار دینا ہے۔۔
محبّت یوں بھی ہوتی ہے !
کبھی سارے اصولِ دِل یہ خود ہی توڑ دیتی ہے
ذرا نظرِ عنایت ہو، توقع جوڑ لیتی ہے
اگر تم شرک کر بیٹھو تو تنہا چھوڑ دیتی ہے
یہ موجِ وحدتِ حق ہے ،سفینہ موڑ دیتی ہے
محبّت اِک صحیفہ ہے
یہ طالب کے دلِ مضطر میں
جاری اِک وظیفہ ہے
محبّت میں اُسے پانا یا کھونا کچھ نہیں رہتا
جنونِ بندگی ہے یہ ، یہ چھونے کا نہیں کہتا
محبّت اِک ازل کی روح کا آدھا سا حصہ ہے
ابد کا آدھا حصّہ ڈھونڈنے کا سارا قصہ ہے
کہیں وہ جلوہ گاہِ ناز میں چھپتی سَرَکتی ہے
محبّت عرش سے جھک کر ہماری راہ تکتی ہے
محبّت یوں ہی ہوتی ہے۔۔۔۔

1
17
بہت خوب۔