محبت یوں نہیں ہوتی |
کہ جس کو کچے زہنوں سے بھی ہم تم جان لیتے ہیں |
کسی بے نام جزبے کو محبّت مان لیتے ہیں |
محبّت ٹوٹنے اور درد کو سہنے کی عادت ہے |
ستم یہ ہے کہ کہتے ہیں یہ بس “چُپ “ کی عبارت ہے |
محبّت الجھی سلجھی خواہشوں سے کچھ پَرے ہٹ کر، خودی کو مار دینا ہے |
محبّت چھوڑنا ہے ہر تمّنا ، اصلِ حاصل ہار دینا ہے۔۔ |
محبّت یوں بھی ہوتی ہے ! |
کبھی سارے اصولِ دِل یہ خود ہی توڑ دیتی ہے |
ذرا نظرِ عنایت ہو، توقع جوڑ لیتی ہے |
اگر تم شرک کر بیٹھو تو تنہا چھوڑ دیتی ہے |
یہ موجِ وحدتِ حق ہے ،سفینہ موڑ دیتی ہے |
محبّت اِک صحیفہ ہے |
یہ طالب کے دلِ مضطر میں |
جاری اِک وظیفہ ہے |
محبّت میں اُسے پانا یا کھونا کچھ نہیں رہتا |
جنونِ بندگی ہے یہ ، یہ چھونے کا نہیں کہتا |
محبّت اِک ازل کی روح کا آدھا سا حصہ ہے |
ابد کا آدھا حصّہ ڈھونڈنے کا سارا قصہ ہے |
کہیں وہ جلوہ گاہِ ناز میں چھپتی سَرَکتی ہے |
محبّت عرش سے جھک کر ہماری راہ تکتی ہے |
محبّت یوں ہی ہوتی ہے۔۔۔۔ |
معلومات