جی چاہتا ہے خوب سے میں خوب تر کہوں
بحرِ طویل میں کہوں یا مختصر کہوں
ہے چاند اس کے حسن کے اظہار میں مگن
تعریف اس کی کر رہا ہے بحر و بر کہوں
دیکھوں تو ہر طرف نظر آتی ہے اس کی شان
کرنوں میں رنگ اس کے ہیں شام و سحر کہوں
رنگ اس کے ہیں گلوں میں قطاروں میں ہیں جو پیڑ
لے کر کھڑے ہیں چار سُو اُس کی خبر کہوں
موجود ہے وہ ہر جگہ ہر لمحہ ہر گھڑی
قبلہ بنا دیا جسے اللہ کا گھر کہوں
تخلیقِ کائنات کا مقصد کہیں جسے
رحمت تھی جس پہ جب پڑی اس کی نظر کہوں
اُس نور تک رسائی تو مشکل نہیں مگر
دیکھیں اسے وہی جو ہوئے دیدہ ور کہوں
یہ آرزو ہے سامنا اس کا ہو جب کبھی
طارق اُسے میں اپنا بے خوف و خطر کہوں

0
32