اس نے وہ خواب دکھائے تھے سہانے کتنے
اب مرے چار سو پھیلے ہیں ویرانے کتنے
مل کے لوٹا تھا ابھی پھر ہے اداسی چھائی
اس سے ملنے کے بناؤں گا بہانے کتنے
ایک زخم اور لگا جب بھی میں اس سے ملا
زخم بھرنے ہی نہ پائے تھے پرانے کتنے
زخم ایسے ہیں کہ بھرنے میں نہیں آئیں گے
مجھ پہ اپنوں نے لگائے ہیں نشانے کتنے
لوگوں کا سیلِ رواں آج یہاں چوراہے پر
دکھ تو یہ ہے کہ مجھے آئے تھے جلانے کتنے
اس نے بس ایک نظر ڈالی تھی مجھ پر شاہد
اور لوگوں نے گھڑ لیے ہیں فسانے کتنے

0
71