جمالِ فکر ہو ایسا کہ وسعتیں مانگے |
خیالِ زیست مری بھی عنایتیں مانگے |
نہ ہو جنوں تو سفر بھی نہیں مکمل سا |
یہ رہگزر تو نفس کی ریاضتیں مانگے |
جو اشک بن کے گرے حرف کی جبیں پر ہوں |
وہ ایک لمحہ کئی گزری حسرتیں مانگے |
ادھورے خواب فقط نیند سے نہیں جڑتے |
یہ کائنات مکمل ، حقیقتیں مانگے |
ہے بخت خام، تو تدبیر بھی نہیں کافی |
دلوں کا کھیل بھی دنیا کی حکمتیں، مانگے |
سخن کا سوز ہو گر سچ کی آگ میں ڈھلتا |
تو پھر ضمیر سے جاناں صداقتیں مانگے |
یہ شعر حسرتؔی دل کی صدا ہے سب حسرت |
کہ ایک عشق ہزاروں محبتیں مانگے |
کلام:- خورشید حسرت |
معلومات