جمالِ فکر ہو ایسا کہ وسعتیں مانگے
خیالِ زیست مری بھی عنایتیں مانگے
نہ ہو جنوں تو سفر بھی نہیں مکمل سا
یہ رہگزر تو نفس کی ریاضتیں مانگے
جو اشک بن کے گرے حرف کی جبیں پر ہوں
وہ ایک لمحہ کئی گزری حسرتیں مانگے
ادھورے خواب فقط نیند سے نہیں جڑتے
یہ کائنات مکمل ، حقیقتیں مانگے
ہے بخت خام، تو تدبیر بھی نہیں کافی
دلوں کا کھیل بھی دنیا کی حکمتیں، مانگے
سخن کا سوز ہو گر سچ کی آگ میں ڈھلتا
تو پھر ضمیر سے جاناں صداقتیں مانگے
یہ شعر حسرتؔی دل کی صدا ہے سب حسرت
کہ ایک عشق ہزاروں محبتیں مانگے
کلام:- خورشید حسرت

0
2
29
احباب سے گزارش ہے کہ اس غزل پر اپنی اصلاحی تنقیدی تبصرہ ضرور کریں۔
شکریہ

0
جناب ابھی کسی تنقید کا کیا فائدہ ؟
آپ نے خود ہی لکھا تھا

"مگر میں ابھی نو آموز ہوں سیکھ لونگا"

تو جب آپ سیکھ لیں گے تب ہی تنقید طلب کیجیئے گا -

0