رلائے ہر گھڑی امت امامِ جعفرِ صادق
ترے گھر پر ہے پھر ظلمت امامِ جعفرِ صادق
تری قاتل بھی ہے امت امامِ جعفرِ صادق
ہے تجھ کو رو رہی وحدت امامِ جعفرِ صادق
دیا منصور نے ہائے خمس میں زہرِ قاتل تو
جہاں سے ہو گئے رخصت امامِ جعفرِ صادق
خدائی علم کو تو نے کیا روشن زمانے میں
بڑھائی دین کی عظمت امامِ جعفرِ صادق
ترے گھر کو جلایا ہے تجھے ہر پل رلایا ہے
ہے قیدی آج بھی تربت امامِ جعفرِ صادق
دمِ آخر بھی ہونٹوں پر فقط زینب کا نوحہ تھا
بتائی حرمتِ عصمت امامِ جعفرِ صادق
جلایا گھر کو تیرے اور پھر شب خون مارا ہے
لہو میں ہو گئے لت پت امامِ جعفرِ صادق
تری بھی بیٹیاں مولا ہیں دیکھو آگ کی زد میں
بھلا ڈالی ہے ہر حرمت امامِ جعفرِ صادق
ترے وہ بین کرتا ہے زبانِ بے زبانی سے
لکھے نوحہ یہ کیا شفقت امامِ جعفرِ صادق

54