آشوب و سر کشی کا سمندر لگا مجھے |
ہر شخص اس جہاں میں ستم گر لگا مجھے |
اتنا مہیب شہر کا منظر لگا مجھے |
اب لب بھی کھولنے پہ بہت ڈر لگا مجھے |
معصوم طِفل شہر میں ہنستے تو ہیں مگر |
ان کی ہنسی بھی غم کا ہی ساغر لگا مجھے |
جس کی خموشیوں میں نہاں اک ہِراس تھا |
کم ظرف و بزدلی کا وہ خُوگَر لگا مجھے |
اس درجہ دل نے مجھ کو جو رسوا کیا یہاں |
دل بھی عدو کے جیسا ستم گر لگا مجھے |
کس کو سناؤں میں دلِ بیمار کا گلہ |
ہر اِنس اپنی شکل میں پتھر لگا مجھے |
آنکھوں میں بس گئی مری دنیا کی رونقیں |
پتھر گرا زمیں پہ تو جوہر لگا مجھے |
آنکھوں سے جب انا کا کوہرا یہ چھٹ گیا |
ادنی بھی تب سے اپنے برابر لگا مجھے |
افسوس مجھ کو سب نے ہی ٹھکرا دیا یہاں |
آ تو بھی آ کے آخری ٹھوکر لگا مجھے |
حسانؔ تشنگی کو نہ میسر فرات ہے |
صحرا کی مثل اپنا مقدر لگا مجھے |
معلومات