اُسے مجھ پہ اب وہ بھروسہ کہاں ہے |
کہ ہر بات پر جھوٹ کا ہی گماں ہے |
سنا ہے کہ وہ چھوڑ کر جا رہا ہے |
جَبھی آنکھ سے ایک دریا رواں ہے |
مجھے میرے دو چار ساتھی بہت ہیں |
اگرچہ ترے ساتھ سارا جہاں ہے |
جو تو بھی نہ سمجھے یہ اشعار میرے |
تو پھر یہ مِری شاعری رائیگاں ہے |
میں بدلا ہوں اتنا کہ اب مجھ سے اکثر |
سبھی پوچھتے ہیں، اسامہ کہاں ہے |
معلومات