اُسے مجھ پہ اب وہ بھروسہ کہاں ہے
کہ ہر بات پر جھوٹ کا ہی گماں ہے
سنا ہے کہ وہ چھوڑ کر جا رہا ہے
جَبھی آنکھ سے ایک دریا رواں ہے
مجھے میرے دو چار ساتھی بہت ہیں
اگرچہ ترے ساتھ سارا جہاں ہے
جو تو بھی نہ سمجھے یہ اشعار میرے
تو پھر یہ مِری شاعری رائیگاں ہے
میں بدلا ہوں اتنا کہ اب مجھ سے اکثر
سبھی پوچھتے ہیں، اسامہ کہاں ہے

179