کہیں چاند بجھنے کو آ گیا کہیں چاندنی بھی سمٹ گئی |
تیرے روبرو کہیں دھوپ بھی جو اٹھی تو اٹھ کے پلٹ گئی |
جو الاؤ دل میں بھڑک اٹھا میرا دوش کیا میرا دوش کیا |
میں فریفتہ نہیں آگ پر مجھے آگ بڑھ کے لپٹ گئی |
وہ عجیب منزل شوق تھی کہ نگاہ دل سے جو طے ہوئی |
جو نظر نظر سے جڑی رہی وہ وجود جاں میں سمٹ گئی |
یہ چراغ عشق کا نور تھا میں سنبھل سنبھل کے گزر گیا |
میرے سامنے تو کبھی کبھی تیری روشنی بھی پلٹ گئی |
ہے نصیب دل سے بچی ہوئی جو فصیل جاں ہے کھڑی ہوئی |
جسے کھیلنا تھا غرور سے وہی بازی اس پہ الٹ گئی |
معلومات