| ہوا نژاد بھی بن کر حباب دیکھتے ہیں |
| تھے زیرِ آب، جنھیں سطحِ آب دیکھتے ہیں |
| ثواب سوچ کا منظر عذاب دیکھتے ہیں |
| سوال سے کہیں پہلے جواب دیکھتے ہیں |
| جو سوتی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں |
| ہمارے جیسے کئی ماہتاب دیکھتے ہیں |
| یہ مانتے ہیں اسے دیکھنے کی تاب نہیں |
| یہ کوئی کم ہے کہ عالی جناب دیکھتے ہیں |
| جفا کا کوئی حساب و کتاب ہوتا ہے کیا |
| وفا میں کیا کوئی اجر و ثواب دیکھتے ہیں |
| تجھی کو سوچے چلی جائیں اور جھپک بھی نہ ہو |
| مری نگاہِ تخیل کی تاب دیکھتے ہیں |
| کمالِ بود و نمو کے لئے ہے شرط فنا |
| سو ہر نفس کو بصد اضطراب دیکھتے ہیں |
| عجب ہے سلسلہِ موت و زیست ہم کہ یہاں |
| عدم وجود ظہور و غیاب دیکھتے ہیں |
| نہیں کبھی نہیں دیکھا سوئے رخانِ بتاں |
| کبھی کبھی یونہی چھپ کر گلاب دیکھتے ہیں |
| ہمارے جیسے نصیبہ جلوں کی بات کہاں |
| جو باب کھول سکیں وہ کتاب دیکھتے ہیں |
| سنائیں خاک کہانی انھیں حبیب کہ جو |
| ہر ایک بات کا لبِ لباب دیکھتے ہیں |
معلومات