اے خدائے عزّ و جل اے مالکِ ارض و سما
تیرے علمِ غیب سے کچھ بھی نہیں ہے ماورا
تُو حئی ہے وہ کہ جس پر مَوت آ سکتی نہیں
تُو وکیل و ناصر و غوث و غیاث و کِبریا
کار فرما ہیں ترے احکام بے چُون و چرا
کس کو ہے سرتابئی احکام سے یارا ذرا
آشکارا ہے ترے محبوب کی اُمّت کا حال
ہر نفس چاکِ گریباں ہر بشر ہرزہ سرا
اُمّتِ مرحوم پر ہے ہر طرف سے تارومار
کیا امامانِ سیاست کیا کلیسا کے خُدا
ہو گیا دنیا میں ارزاں آج مسلم کا لہو
کیا فلسطین و عراق و کیا زمینِ انبیا
درپئے آزار ہیں فرزندِ تثلیثِ مسیح
ایک اندھا بُعد ہے بین الحرا و ناصرہ
شیر خواروں کے لہو سے آج بھی رنگیں ہیں ہاتھ
کل کیا کرتے تھے جو قتلِ مسیح و ذکریا
ہر طرف یلغار ہے اور اُمّتِ ختم الرسل
طعنہ زن ہیں غیر کہ کوئی نہیں اپنا خدا
کیا کریں جائیں کہاں کس کو سنائیں حالِ دل
قادر و عادل ہے تُو،تو قاتلوں کو دے سزا
آوازۂ غیب ;
سُنتِ ختم الرسل پر ہر طرف سے وار ہے
حاملِ قرآن خود قُرآن سے بیزار ہے

0
12