عجب اک حشر برپا ہے مجھ میں
روز اک شخص مرتا ہے مجھ میں
کیوں کروں اپنی پروا میں جاناں
وہ تھا ہی کب جو میرا ہے مجھ میں
اب کہیں کچھ دھواں نہیں اٹھتا
خدا جانے کیا جلتا ہے مجھ میں
مجھ کو اک لمحہ بھی قرار نہیں
جانے اب کون ٹوٹا ہے مجھ میں
میرا بھی جی بہلتا ہے تمہیں سے
اب کیا ہی کچھ انوکھا ہے مجھ میں
ڈھونڈتا ہوں تیرا وجود مگر
اپنا ہی آپ بکھرا ہے مجھ میں
آگ کا دریا ہے وہ اور پھر وہ
آگ کا دریا بہتا ہے مجھ میں
میری سانسو ذرا پتا تو کرو
مجھ ہی سے کون لڑتا ہے مجھ میں
بجھ نہیں سکتا ایک جام سے میں
پیاس کا جلتا صحرا ہے مجھ میں
میں کسی دنیا میں نہیں ہوں مگر
سچ یہ ہے ساری دنیا ہے مجھ میں
اس بھری بزم میں بھی چین نہیں
کوئی تو ہے جو تنہا ہے مجھ میں

128