ماں کی یادیں
خدا کی وہ عطا تھی اور محبت کی صَدا تھی
کلام :ابوالحسنین محمد فضلِ رسول رضوی، کراچی
خدا کی وہ عطا تھی اور محبت کی صَدا تھی
مری ماما مرے سارے غموں کی اک دَوا تھی
کبھی نرمی کبھی سختی طبیعت میں رچی تھی
مگر ہر اک ادا میں پیکرِ مِہر و وَفا تھی
سنا کر وہ کبھی لوری کراتی چپ مجھے تھی
صعوبت پھر کہاں رہتی بھلی اس کی صَلا تھی
کبھی ناں مانگتی تھی وہ جزا اس کی کسی سے
مری اک مسکراہٹ ہی اسے کافی صِلا تھی
بتاتا ناں کبھی بھی شرم سے میں بچپنے میں
مگر وہ جانتی تھی سب کہ یہ میری رضا تھی
کھلاتی تھی شَکَر میں گھی ملا کر پھر مجھے وہ
پتہ میری خوشی کا تھا بہت اعلیٰ ذکا تھی
صَداقت کی دَیانت کی اَمانت کی اَمینہ
لَطافت میں نَفاست میں مری ماں جی جُدا تھی
کَٹھن ہیں مرحلے اب زندگی میں ہر قَدَم پر
ہمیشہ ساتھ ہر لمحہ مری ماں کی دُعا تھی
غموں کو تو بھگاتی تھی دُعا اس کی ہمیشہ
سدا میرے لئے أَمَّاں، خوشی کی اک گھٹا تھی
ملی ہیں راحتیں ساری مجھے اس کی دعا سے
حقیقت ہے خدا کی رحمتوں کی وہ ہَوا تھی
مری ساری خطاؤں کی معافی تھی وہاں پر
سبھی تو جانتے تھے شفقتوں کی وہ نَوا تھی
رہے گی یاد مجھ کو یہ ادا اس کی ہمیشہ
نمازوں پر اٹھاتی جب مجھے اس کی نِدا تھی
لگے جب آنکھ میری تو وہ آتی ہے مرے پاس
ابھی تک وہ نہیں بھولی مجھے یوں مامتا تھی
پلایا ہے سبق اس نے شرافت کا مجھے یوں
ابھی تک گونجتی کانوں میں اس کی یہ صدا تھی
کہا اس نے مجھے جو، ہوں عمل پیرا اسی پر
طریقہ تھا بتانے کا اسے، وہ رہنما تھی
خدا کے خوف میں وہ گَڑگَڑا تی تھی شب و روز
یہی رختِ سفر اس کے لئے نوری جَزا تھی
تہجد بھی کبھی چھوٹی نہ اس کی آخری دم
خدا سے مانگتی وہ مَغْفِرَت کی بس رِدا تھی
نبی کے عشق کا بھی درس دیتی وہ رہی تھی
رسولِ پاک سے الفت اسے دل سے سَدا تھی
ملی تھی غوث کی اس کو محبت بھی خدا سے
گدائی غوث کی اس کو ملی، رب کی عطا تھی
وفائے مرشدی بھی وہ مجھے ہر پل سکھاتی
خدا کے اولیا کی وہ محبت میں فنا تھی
مریضہ تھی مگر پھر بھی مرے آرام پر خوش
مجھے دے کر سکوں وہ ڈھونڈتی رب کی رضا تھی
کرے رضْوِی کہاں اس کی عنایت کا بیاں اب
مرے رب کی عطا سے وہ مری مشکل کشا تھی
از ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی، کراچی

2
301
اللہ کریم ان کی تربت پہ انوار و تجلیات کی بارش نازل فرمائے آمین۔

0
آمین یا رب العالمین بحرمت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

0