ہے دائمی یہ جوانی نہ زندگانی ہے
بہار گر ہے چمن میں خزاں بھی آنی ہے
۔
ڈھکی چھپی سی ہو بات اور نہ کھل کے کرو
بھلی ہے بات وہی جو کہ درمیانی ہے
۔
نظر میں جن کے برابر ہیں خار ہو یا کہ گل
انھیں کو مژدۂ منزل کی شادمانی ہے
۔
سجی ہے لب پہ ہنسی آستین میں خنجر
کوئی تمھارا اداکاری میں نہ ثانی ہے
۔
ہوں شش جہات سے باہر کی جستجو میں مگن
زمین کا ہوں مکیں سوچ لامکانی ہے
۔
دل و دماغ پہ کوئی اثر نہ چھوڑے گر
تو واعظ آپ کی تقریر بے معانی ہے
۔
تمام شہر پہ جادو کرے مری یہ غزل
ردیف قافیے کے ساتھ یوں نبھانی ہے
۔
یہی ہے فلسفۂ زندگی مرے نزدیک
غموں میں لپٹی خوشی اصل زندگانی ہے

0
6