جب سورج ڈھلتا ہے
جب زلفیں شب کی کھلتیں ہیں
فضا خاموشی کی چادر اوڑھتی ہے
جب تارے نکل پڑتے ہیں
جب چاند نکل پڑھتا ہے
بامِ فلک سے شبنم گرتی ہے
جب نیند برستی ہے
جب خواب برستے ہیں
جب دنیا سوتی ہے
جب احساس جگتے ہیں
جب شعلے سلگتے ہیں
کوئی دیوانہ کوئی آوارہ
گھر کے دِیوں کو بجھا کر
اپنا جسمِ خاکی اتار کر
دن بھر کی تھکن چھوڑ کر
دل کو دل کے ارمانوں کو
سب حسرتوں کو بے شکل سے خوابوں کو مار کر
ان امیدوں کی شمعوں بجھا کر
اک عمر سے جو جلتے رہے ہیں
جو کسی بے خیالی میں پلتے رہے ہیں
وہ نکل پڑھتا ہے
کسی دشت کسی خواب نگری کی جانب
کسی صحرا کسی شہرِ آوارگی کی جانب
جہاں دل جلتے ہوں چراغ نہیں
جہاں ہونٹ کھنکتے ہوں یہ ایاغ نہیں
آنکھیں جلتی ہوں خواب نہیں
جہاں ہوش نہیں متعین کوئی شعور نہیں
کوئی رسم و راہ نہیں کوئی دستور نہیں
کوئی اہلِ ثروت کوئی مزدور نہیں
جہاں نیند نہیں آرام نہیں
زندہ لاشوں کا کام نہیں
جہاں صبح و شام کا یہ ہنگام نہیں
جہاں نام نہیں دنیا سا نظام نہیں
جہاں سوچ کی کوئی حد ہی نہیں
کسی آدمی کی آواز رد بھی نہیں
جہاں کوئی نواب نہیں کوئی جناب نہیں
جہاں کوئی گناہ نہیں کوئی ثواب نہیں
جہاں بس آدم کی قدر ہو اس کے لباس کی قدر نہیں
جس عالم ذہن میں آج نہیں وہ کل بھی نہیں
یہ وقت نہیں یہ زماں بھی نہیں
یہ وہم نہیں یہ گماں بھی نہیں
جہاں کوئی پردہ نہیں
کسی چیز کی پروہ نہیں
جس عالم میں تو میں وہ نہیں
جہاں آدمی آدمی سے ملتا ہو
جہاں پھول وجود کا کھلتا ہو
جہاں آدمیت کا دریا بہتا ہو
ہر کوئی اپنے آپ کو آدم کہتا ہو

133