کیوں یہاں آئے یہ اکثر بولتا رہتا ہوں میں
زندگی کا کیا ہے مقصد ، تولتا رہتا ہوں میں
میری قربت میں جو رہتا ہے بڑا دلگیر ہے
ساتھ شاید اس کو اپنے رولتا رہتا ہوں میں
زندگی میں کیا ہے کھویا، کیا ہے پانے کا جنون
دل ہی دل میں خود کو اکثر تولتا رہتا ہوں میں
بیچ دریا کے تو کھیلا ہوں میں موجوں کے خلاف
بیٹھ کر ساحل پہ کیوں پھر ڈولتا رہتا ہوں میں
روشنی ہے اس چراغِ زندگی کی چار دن
چاندنی ماحول میں پر گھولتا رہتا ہوں میں
راز پوشیدہ ہیں کتنے، ہے معمّہ کائنات
غور کر کے دل کی گر ہیں کھولتا رہتا ہوں میں
سوچ کو دے کر سُخن کا روپ کر لوں گفتگو
لوگ کہتے ہیں کہ اکٹر بولتا رہتا ہوں میں
اپنے اندر دیکھنے کی جب مجھے فرصت ملے
پا کے طارق راز اس کے کھولتا رہتا ہوں میں

0
55