نظم |
کام سب چھوڑ کے میں تیری ڈگر پر نکلوں |
دیکھنے دنیا ، ترے ساتھ سفر پر نکلوں |
کوئی منزل ہی نہ ہو چلتے چلے جائیں بس |
ہم کو یادیں نہ ستائیں نہ کبھی آئیں بس |
یوں کبھی سوچ کے بُنتے ہوئے تانے بانے |
نیند جب آئے تِرا ، سپنا سہانا دیکھوں |
میں تری زلف کے سائے میں گزاروں راتیں |
صبح ہوتے ہی تِرا چاند سا چہرہ دیکھوں |
تو اگر مجھ سے جُدا ہو بھی مرے ساتھ رہے |
تُجھ کو ہر موڑ پہ بیٹھے ہوئے تنہا دیکھوں |
خواب دیکھوں تو میں تعبیر بھی اس کی پاؤں |
پوری ہوتی ہوئی ہر اپنی تمنّا دیکھوں |
تلخ ہے پر یہ حقیقت کہ بہت مشکل ہے |
ہو سفر کیسا بھی ہوتی تو کوئی منزل ہے |
ہو تعیّن کسی منزل کا تو اس سمت چلیں |
تختۂ دار کو بھی ، چھوڑ کے ہم تخت ، چلیں |
دوڑ سکتے نہیں جائیں گے کہاں دنیا سے |
حال رہتا ہے جو پیوستہ سدا فردا سے |
اپنے ماضی کو جُدا کیسے کریں گے خود سے |
بھول جائیں گے جو رشتے تو مریں گے خود سے |
سوچ تو سوچ ہے یونہی چلی آتی ہے کبھی |
ذہن کے در پہ کھڑی شور مچاتی ہے کبھی |
ایک دن سچ کا ہمیں سامنا کرنا ہو گا |
ہم چلے ، چھوڑ کے دنیا یہی کہنا ہو گا |
معلومات