وقتِ شب خود سپردگی کر دے |
یوں فنا خاک میں خودی کر دے |
چھا رہا یاس کا اندھیرا ہے |
صبحِ امّید ، روشنی کر دے |
آسماں کی طرف نگاہیں ہیں |
دور ساری یہ تیرگی کر دے |
حوصلے پست ہوتے جاتے ہیں |
گرتی دیوار پھر کھڑی کر دے |
دل پہ کب سے خزاں کا عالم ہے |
اس پہ تھوڑی بہار ہی کر دے |
کوئی برسات غیب سے برسا |
ڈال امّید کی ہری کر دے |
تجھ سے تیرا ضمیر چھن جائے |
عقل کی قید سے بری کر دے |
تجھ کو تنہائیاں عزیز ہوئیں |
دل ترا دشت میں قوی کر دے |
ہجر ہے اور فراق کا عالم |
دن بدل ، وصل کی گھڑی کر دے |
کہہ دے طارق تجھے جو کہنا ہے |
تجھ کو تیرا خدا جری کر دے |
معلومات