روپ سے جن کے رعنائی
فعل میں اُن کے دانائی
تابانی جو دیتے ہیں
حسن لے اس سے زیبائی
روضہ اُن کا شوق میں ہے
آنکھ ہے میری بھر آئی
تر ہے داماں اشکوں سے
مجلس میری تنہائی
آئیں گے باراں رحمت کے
دیکھ گھٹا ہے جو چھائی
ذوق ہے دل میں طیبہ کا
لوگ کہیں ہیں ہے سودائی
بردہ محمود اُن کا ہے
بات سمجھ میں یہ آئی

0
12