کہاں ہے سوچ جو دنیا نئی بسا سکتی
اندھیری راہ پہ شمعیں کوئی جلا سکتی
اب اٹھ گئی ہے قیامت تو کیا مفر اس سے
گیا وہ وقت کہ توبہ ہمیں بچا سکتی
خزاں کے رنگ عطائے نصیب تھے ایسے
بہار کیسے تصور مرے میں آ سکتی
دریچے دل کے ہمیشہ کھلے رہے لیکن
نسیمِ گل کو ہی فرصت نہ تھی کہ آ سکتی
مرے مزاج کی آشفتگی بجا لیکن
مرے خلوص کو دنیا نہیں بھلا سکتی

26