| مصرعہ طرح : ناشر علی کے عشق میں جاں سے گزر گئے | 
| انکے نصیب اُنکے مقدر سنور گئے | 
| چہرے علیؑ کے ذکر سے جنکے نکھر گئے | 
| ہم جستجوئے رب میں نہ پوچھو کدھر گئے | 
| آئے علی علی ہی نظر ہم جدھر گئے | 
| صد شکر جس گلی میں گئے، جس نگر گئے | 
| ذکرِ علیؑ کی شمع جلاکر گزر گئے | 
| چہرے اتر گئے ہیں جو سنکر علیؑ کا ذکر | 
| چہرے وہ سب ہماری نظر سے اتر گئے | 
| قفعہ بند | 
| کیا آپ کو خبر ہے علیؑ کے حدود کی | 
| یا یوں ہی کہہ رہے ہیں کہ حد سے گزر گئے | 
| پہلے ہمیں بتائیے کیا ہے علیؑ کی حد | 
| پھر اس کے بعد کہیے کہ حد سے گزر گئے | 
| اکبرؑ کے وار دیکھ کے جبریلؑ نے کہا | 
| یا رب ہو خیر! آج تو یہ میرے پر گئے | 
| راضی ہوا جو قاتلِِ زہراؐ سے جان لو | 
| جائے گا وہ وہیں جہاں شمر و عمر گئے | 
| جنگِ اُحد میں اُن کو پکارا کیے نبیؐ | 
| کم ظرف اپنے وعدے سے لیکن مکر گئے | 
| بے شک وہ نامراد صحابی تھے دوستو | 
| حکمِ نبیؐ پہ ورنہ تو چل کر شجر گیے | 
| تسبیحِ کربلا کے چمکتے ہوئے گہر | 
| اِک دو پہر میں ریت پہ سارے بکھر گئے | 
| ناشر کی قبر پر یہی تحریر کیجئے | 
| ناشر علیؑ کے عشق میں جاں سے گزر گئے | 
| دنیا کی مشکلوں کو مصیبت میں ڈال کر | 
| ہم ذکرِ مرتضیٰؑ کے سہارے گزر گئے | 
| نعلینِ مصطفیٰؐ کے تصور میں اے ظہیرؔ | 
| سارے خیال منزلِ معراج پر گئے | 
    
معلومات