بچپن سے ہی سبق ہمیں ایسے پڑھا دئے
جینے کے زندگی نے سلیقے سکھا دئے
قوسِ قُزَح کو دیکھ کے حیران ہم ہوئے
قدرت نے اس میں رنگ جو بھر کے دکھا دئے
دیکھا ہے برف باری نے ڈھانپے سبھی بدن
سب کو سفید رنگ کے کپڑے دلا دئے
احرام باندھ کر گئے اس کے دیار میں
دیکھا تو حُسنِ یار نے پردے ہٹا دئے
اس کے حضور ہم کھڑے تھے ہاتھ باندھ کر
اس پر زباں نے وصل کے وعدے سنا دئے
پیغام سن کے پیار کا اس نے یہی کہا
کیوں تم نے آج تلخ سے لہجے دبا دئے
ہم انتظار میں تھے ابھی اس نے جب کہا
کس نے تمہیں یہ پیار کے جذبے سکھا دئے
طارق تمام عمر رہے جس کے منتظر
اس نے بھی ہم کو پیار کے جلوے دکھا دئے

1
162
پسندیدگی کا بہت شکریہ حمیداللہ ماہر صاحب

0