مجھ کو اس دنیا میں کچھ اور ابھی رہنا ہے
کتنے باقی ہیں ابھی کام جنہیں کرنا ہے
میرے ماں باپ کا ہے قرض مری ہستی پر
ان کی ہو جائے گی بخشش مجھے وہ دینا ہے
اپنے ماں باپ کا میں پھر بھی رہوں گا مقروض
ان کے احسانوں کا بدلہ بھلا کیسے دوں گا
اور بھی لوگ ہیں احسان ہیں جن کے مجھ پر
میرے استادوں نے جو علم دیا بانٹوں گا
اپنے بچوں کو سکھاؤں گا ادب وہ بھی کریں
اپنے استادوں سے سیکھیں کہ ادب شے کیا ہے
بے ادب ہو کے نصیبوں کو وہ کھو دیں نہ کہیں
با ادب ہوں گے مرادیں انہیں مل جائیں گی
شکریہ بیوی کا بھی مجھ کو ادا کرنا ہے
عمر بھر اس نے تقاضا نہ کیا کہہ دوں میں
تُو نے جو ساتھ نبھایا ہے مرا صبر کے ساتھ
میں نے جو کچھ بھی کہا مانا مجھے پیار دیا
مجھ پہ ہر رشتے کو قربان کیا مان دیا
عمر بھر میں تجھے اتنا بھی کبھی کہہ نہ سکا
تُو مجھے جان سے پیاری ہے مری جانِ وفا
اپنے بچوں سے مجھے پیار نہ ہو گا کیونکر
وہ مری جان ہیں اور جان و جگر سے بڑھ کر
ہاں مرے دوست انہیں کیسے بُھلا سکتا ہوں
ہے مری ذات پہ قرض ان کی محبّت کا بھی
بے غرض ان کی ہے چاہت جو رہی میرے لئے
بھول سکتا ہی نہیں ان کی وفاداری کو
میری مشکل میں مری کی ہوئی دلداری کو
الوداع ان کو بھی کہنا ذرا آسان نہیں
وہ سمجھ لیں نہ کہیں ان پہ مجھے مان نہیں
مجھ سے انجانے میں جو ظلم ہوا بھول ہوئی
مانگ لوں گا میں معافی سبھی ان لوگوں سے
در گزر کر دیں گے ان سے جو کہوں گا جا کر
کام اک آدھ کوئی نیکی کا کرتا جاؤں
صدقۂ جاری بنے جس کا صلہ جا کر پاؤں
بس مجھے اتنی سی مہلت جو ملے خوش ہوں میں
اک ذرا دیر مجھے اور یہاں رہنا ہے
رہ گئے جو انہیں کامو ں کو ابھی کرنا ہے
اک ذرا دیر ملائک مجھے فرصت دے دو
تھوڑی سی دیر فرشتو مجھے مہلت دے دو

0
14