خوف و دہشت ہی ہر سو چھائی ہے
ظلم نے دھاک یہ بٹھائی ہے
صرف تیرے کرم پہ تکیہ ہے
کام آتی نہ پارسائی ہے
اس کا نشہ نہ عمر بھر اترا
تیری آنکھوں نے جو پلائی ہے
دردِ دل ہے ہمیں عزیز از جاں
عمر بھر کی یہی کمائی ہے
تیز ہوتی ہے اشکباری سے
دل نے یہ آگ جو لگائی ہے
ہم تو غفلت شعار تھے ہی مگر
چوٹ دانستہ اب کے کھائی ہے
چار سو ظلم کا بسیرا ہے
سہمی سہمی سبھی خدائی ہے
دل کا آنگن بجھا بجھا ہی رہا
اب کے کیسی بہار آئی ہے
جان و دل کا قرار لوٹ لیا
کیسی تیری یہ نے نوائی ہے
پاس ہوتے بھی تجھ کو پا نہ سکے
ہائے کیسی یہ نا رسائی ہے
دیں کے بدلے خرید لی دنیا
بھاری قیمت بڑی چکائی ہے
جھوٹی عزت کو پانے کی خاطر
ساری شرم و حیا گنوائی ہے
اپنی قسمت پہ کیوں نہ ناز کروں
مجھ کو حاصل تری گدائی ہے
اس کی رونق تمام تر تم سے
ناز نے بزم جو سجائی ہے

0
8