ہزار طوفان بحر و بر میں مزاجِ دریا بھی پر خطر ہے
مجھے ضرر کیوں ہو رنج و غم سے کہ ربِِّ کعبہ کو سب خبر ہے
اگرچہ راہِ وفا سے ہٹ کے مَیں تھک گیا تھا غمِ شرر سے
مَیں مطمئن ہوں زمانے والو کہ قلب و جاں میں نبی کا گھر ہے
اے مومنو حِرزِ جاں بنا لو محمّدّی ہیں نشاں بنا لو
چھٹیں گے بادل ضرور اک دن یہ وعدۂ سیدُّ البشر ہے
ابھی بھی دل میں رچی ہوئی ہیں رچی ہوئی ہیں بسی ہوئی ہیں
وہ ساعتیں جو جگائے رکھتیں رسول اللّہ کے در پہ سر ہے
مرا قلم ہو مری زباں ہو نبی کی شانِ حسیں بیاں ہو
تو رازِ دل اس طرح عیاں ہو حضور دامن یہ تر بتر ہے
درِ مُحُّمد سے اُٹھ کے آنا کہاں ہے آساں یہ بھول جانا
مَیں کیسے اُٹھّا کہاں پہ آیا ابھی حضر تھا ابھی سفر ہے
الٰہی ہم کو معاف کردے کہ اُمّتی ہیں شہِ عرب کے
ہماری منزل کے ہر قدم پر کہیں ہے خندق کہیں بدر ہے
امید احقر حقیر بن جا نبی کے در کا فقیر بن جا
گدا ہوں کیسا نظیر بن جا یہی سمع ہے یہی بصر ہے

0
118