محبت مری تو بس اک امتحاں ہے
تمھیں چاہنا بھی تو کارِ رواں ہے
کبھی یہ ہے ظالم کبھی مہرباں ہے
کبھی پیری ہے یہ کبھی یہ جواں ہے
کہ باہر جو رہ کے سمجھ میں نہ آئے
کہ بستا الگ ہی جو اس کا جہاں ہے
کبھی یہ شکایت کبھی روٹھ جانا
کبھی یہ تشکر کی میٹھی زباں ہے
کہ تجھ سے ملن کی کبھی آس ہے یہ
کبھی یہ جدائی کبھی یہ فغاں ہے
کبھی ہے یہ جشنِ بہاراں کی مانند
یہ سوئی ہوئی پھر کبھی اک خزاں ہے
بیک وقت غم ہے خوشی ہے جو اس میں
سمجھ میں نہ آئے یہ کیسا سماں ہے
ہمایوں یہ تیرے تو بس میں نہیں ہے
محبت کمانا بہت ہی گراں ہے
ہمایوں

0
7