جو بات اپنی اصل میں حد سے گزر گئی
لب پر نہ گرچہ آئی پہ دل میں اتر گئی
پوچھا تھا آج موت سے کب تک ہے زندگی
کہنے لگی حیات ہی بے مَوت مر گئی
کیا حشر میں غریب سے بھی ہو گی گفتگو
کہ زندگی بھی حشر کی صورت گزر گئی
کیا پوچھتے ہو رات کی عشوہ طرازیاں
اس کو شکم کا خوف اسے تن کی پڑ گئی
دھن کے جنم سے والدہ کی ساکھ گِر گئی
آدم کے عِزّ و جاہ کو نیلام کر گئی
امید مختصر کرو خوابوں کے سلسلے
کچھ احتیاط ورنہ نمازِ سحر گئی

0
103