ہوئے ہیں جنگ کے ساماں کہاں پائے اماں کوئی
رکھے سنبھال کر کس کی حفاظت میں یہ جاں کوئی
نہ ملتا ہے نہ ملنے کا اشارہ کوئی دیتا ہے
دیا امّید کا روشن کرے دل میں کہاں کوئی
ہمیں معلوم ہے تیرے جہاں ہیں اور بھی لیکن
یقیں ہو کس بھروسے پر کہ ملتا ہے وہاں کوئی
اسے کیونکر ہو اندازہ نہ ہو اظہار جب اس سے
محبّت کتنی رکھتا ہے یہاں دل میں نہاں کوئی
کہاں تک جھوٹ کے پیچھے چھپیں گی ظلمتیں شب بھر
چڑھا سورج تو کر دے گا صداقت اب عیاں کوئی
مجھے حیرت ہے کیونکر وہ سمجھ پاتا نہیں اتنا
چلاتا ہے کوئی چلتا ہے تب کون و مکاں کوئی
وہ مالک ہے جہاں میں ہر طرف کرسی اسی کی ہے
محیط اِس پر ہے اُس پر تو نہیں قیدِ زماں کوئی
تمہیں ادراک ہو طارق اگر اس کی بڑائی کا
سنائی نعرۂ تکبیر دے لب پر فغاں کوئی

0
11