ہر سمت ہے سامان ہوا نوحہ گری کا
ماحول مگر کیوں ہے یہ آشفتہ سری کا
غفلت کے لحافوں میں پڑے سوئیں شب و روز
حق ان سے ادا کیسے ہو پھر ہم سفری کا
گر ہو گا حساب ان سے تو کس بات کا ہو گا
رکھتے ہیں بہانہ تو فقط بے خبری کا
جب لوٹ کے جائیں گے پذیرائی ملے گی
کچھ خوف نہیں اُن کو رہا پردہ دری کا
ہے جن سے توقع کہ مسیحائی کریں گے
بیمار ہیں ساماں ہی نہیں چارہ گری کا
سوچو تو ہے یہ سلسلہ کیونکر ہوا تخلیق
“آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا”
ملّا نے بھی انکار شہادت سے کیا ہے
طارق اُسے لالچ تو دیا حور پری کا

0
17