”ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“
ملال و غمِ بیکراں اور بھی ہیں
بہت ہیں ابھی اور منصور حلّاج
”اناالحق“ کہیں، سولیاں اور بھی ہیں
نہیں محض دیر و حرم، مے کدہ ہی
فقیروں کے سو آستاں اور بھی ہیں
نہیں رشتۂ خاک و پاک، ایک نسبت
تعلّق کئی درمیاں اور بھی ہیں
نہیں صاعقہ مسکراہٹ کسی کی
جلانے کو گھر بجلیاں اور بھی ہیں
جہاں بھر میں خاموش میں ہی نہیں ہوں
کچھ اقبالؔ سے بے زباں اور بھی ہیں
”گئے دن کہ تنہاؔ تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں“

0
156