شگفتہ پھول ہو ڈالی میں پھل نکل آئے
کہ اب تو جہد کا نعم البدل نکل آئے
ذرا سا صبر سے جو کام لوگ لینے لگیں
نہ جانے کتنے مسائل کا حل نکل آئے
مرے جنون کی یہ حد کہ چاہتا ہوں میں
ہر ایک پیاس کی ایڑی سے جل نکل آئے
کبھی جو سوچ لیں جی بھر تجھے اکیلے میں
مرا خیال ہے پھر اک غزل نکل آئے
مری حیات کے وہ لمحے یاد گار بنے
تمہارے ساتھ جو دو چار پل نکل آئے
کوئ طبیب مری جانچ اگر معین کرے
تو اس کے عشق کا مجھ میں خلل نکل آئے
غلام معین الدین اختر

0
64