زمانے کی زنجیر توڑوں گا میں
ستم کے ہر اک داغ دھو دوں گا میں
نہ ظلمت کا سایہ رہے گا یہاں
کہ ظلمت کا نقشہ مٹاؤں گا میں
جو زنداں میں ہیں، ان کو آزادی دوں
کہ اپنے ہی وعدے نبھاؤں گا میں
نہ طاغوت کا خوف دل میں رہے
کہ ہر خوف کو بھی مٹا دوں گا میں
نہ شاہوں کا دربار میرا رہے
کہ زیرِ زمیں تخت لاؤں گا میں
بساطِ ستم کو الٹ دوں گا پھر
کہ حق کے لیے لڑتا جاؤں گا میں

0
3
50
حضرت میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ قافیے کا علم حاصل کریں - یہ سب قافیے غلط ہیں
توڑوں کا قافیہ ، دھودوں نہیں ہوتا
بکھرتا کا قافیہ لپکتا نہیں ہوتا
راہوں اور گواہوں کو مطلع کا قافیہ کریں گے تو پھر آگے وفاؤں قافیہ نہیں ہوگا -

آپ کو ویب پہ بہت سا علم اس پر مل جائے گا-
میرا مقصد آپ کی اس طرف توجہ مبذول کرانا ہے تا کہ آپ اس کمی کو دور کر کے اپنے کلام کو معیاری بنا سکیں -

آپ کی اصلاح کا بہت شکریہ۔ جی ساتھ ساتھ پڑھ رہا ہوں۔ کوئی خاص کتاب جو آپ بتاسکیں تو اور اچھا ہے

0
ویسے تو بہت ساری کتابیں ریختہ پہ مل جائیں گی مگر اسامہ سرسری نے جدید انداز کی ایک کتاب لکھی ہے
"آؤ قافیہ سیکھیں" آپ کو اس سے ابتدا کرنی چاہیئے -
اسامہ صاحب کا پورا یوٹیوب چینل ہے علمِ شاعری پر - وہ سب ویڈیوز بھی ضرور دیکھیں - ان سے رابطے کا پتا بھی اسی میں ہے -

0