رو روکے بیاں کرتی تھی یہ فاطمہ صغرٰی |
گھر آو خدارا |
حجروں میں نظر آتا ہے ہر ایک کا سایہ |
گھر آو خدارا |
تنہا جو مجھے چھوڑ کے کربل میں بسے ہو |
کیا بھول گئے ہو |
اے بھیّا مجھے ساتھ میں لانے کا تھا وعدہ |
گھر آؤ خدارا |
اس داغِ فراغت کو میں اب سہہ نہیں سکتی |
یہ جاں ہے نکلتی |
میں آٹھوں پہر یاد تمہیں کرتی ہوں بابا |
گھر آؤ خدارا |
کہتی نہ تھی ہمراہ مجھے لے چلو بابا |
چھوڑو نہ خدارا |
بیٹی کے لئے باپ ہی ہوتا ہے سہارا |
گھر آو خدارا |
حالت جو ہے میری ہے شب و روز پہ روشن |
تنہائی ہے دشمن |
اکبر کے سوا کوئی نہیں غم کا مداوا |
گھر آؤ خدارا |
اِس باغ امامت میں کھلا تھا جو گلِ تر |
ہاں میرا وہ اصغر |
ہر پل مجھے تڑپاتا ہے اصغر کا ہمکنا |
گھر آو خدارا |
عباس چچا مجھ کو تھی تم سے تو بڑی آس |
اب تم بھی نہیں پاس |
روداد بیاں کس سے کرے فاطمہ صغرا |
گھر آؤ خدارا |
بھیا علی اکبر کی ہے شادی کا جو ارمان |
ہے یہ میرا ایمان |
اے بھیا سجاؤں گی میں سہرا بھی تمھارا |
گھر آؤ خدارا |
وہ ثانئ زہرا ہیں پھوپھی جان ہماری |
اکبر پہ ہیں واری |
اکبر کا تمھیں واسطہ اے ثانئِ زہرا |
گھر آؤ خدارا |
آشفتگی اب اور مِری بڑھنے لگی ہے |
یہ کیسی گھڑی ہے |
کیا چاند محرم کا نظر ہے یہاں آیا |
گھر آؤ خدارا |
یہ قاصدِ صغرٰی ہوا اس وقت ہے نازل |
جب کچھ نہیں حاصل |
برچھی کو کلیجے میں ہے اعدا نے اتارا |
گھر آؤ خدارا |
پھر لاشۂ اکبر سے یہ کہتے رہے شبیر |
سن لو میرے دلگیر |
آیا ہے ابھی کہتا ہے تم سے خطِ صغرٰی |
گھر آؤ خدارا |
اکبر کی جواں لاش کو خیمے میں جو لائے |
شہ نے کہا ہائے |
ہم شکلِ پیمبر کا بدن چھلنی ہے سارا |
گھر آؤ خدارا |
خونِ علی اکبر سے لکھے شہ نے جو صائب |
اس طرح مصائب |
پیری میں مجھے چھوڑ کے اکبر ہے سدھارا |
گھر آؤ خدارا۔ |
معلومات