دور تک جب صنم بھی سفر کر گیا
اپنا ہی وہ وطن تب بدر کر گیا
نظروں سے کیسے اوجھل ہوا آن میں
لمحوں میں سب کو پر بے خبر کر گیا
ڈستی ہیں یادیں رہ رہ کے محبوب کی
میرے ہی گھر مجھے وہ بے گھر کر گیا
وقت رخصت انوکھی ادائیں رہی
کیا کہوں اشکوں سے چشم تر کر گیا
سپنے دیکھے کبھی نا بچھڑنے کے تھے
خوشیاں ہی ساری جو منتشر کر گیا
عشق بازار میں بکتا ہرگز نہیں
چاہ میں جیسے بے سیم و زر کر گیا
کٹتے ناصؔر نہیں ہجر کے یوم و شب
کیوں نجانے ہمیں منتظر کر گیا

0
55