دن گئے اب راحت و آرام کے
ہم پہ اب ایام ہیں آلام کے
جی رہے ہیں ہم اسی امید میں
دن میسر ہوں کبھی آرام کے
ہم کو تیرے نام سے شہرت ملی
ورنہ ہم بس آدمی تھے نام کے
ہم کو جس پر تھا مکمل اعتبار
چل دیا وہ دستِ دشمن تھام کے
ہجر کے غم نے معطل کر دیا
”ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے“
پہلے تھے کتنے معزز ہم مگر
اب مسلماں ہیں فقط ہم، نام کے
غیر ہی رنج و الم میں ساتھ ہیں
آشنا ہیں سارے احسنؔ نام کے

4