کتنے ہی خواب اپنے سہانے دبا دئے
یادوں میں رہ گئے جو فسانے دبا دئے
آئے تو تھے زمیں سے خزانے نکالنے
ہم نے زمیں میں کتنے خزانے دبا دئے
ماحول خوشگوار میسّر رہا مگر
ہم نے ہی دل فریب ترانے دبا دئے
آئے تھے اس کو ترکِ تعلق کے جو خیال
ہر بار اُس نے کر کے بہانے دبا دئے
مایوس جب کبھی ہوا اس کے خلوص نے
ہمت بڑھا کے پیار سے شانے دبا دئے
وہ مسکراہٹوں کے رہے منتظر سدا
ہم نے بھی اشک کیسے نہ جانے دبا دئے
ہم کو بھی بن سنور کے نکلنے کا شوق تھا
ہم مرد تھے تو شوق زنانے دبا دئے
جذبوں کے سامنے کبھی ٹھہری بھی ہے خرد
طوفاں نے آکے شہر پرانے دبا دئے
طارق ہمیں یقین تھا پھل میٹھا ہی ہو گا
دل کی زمیں میں صبر کے دانے دبا دئے

0
3
72
یہ شعر بہت اچھا ہے
آئے تو تھے زمیں سے خزانے نکالنے
ہم نے زمیں میں کتنے خزانے دبا دئے


0
یہ شعر بہت اچھا ہے
آئے تو تھے زمیں سے خزانے نکالنے
ہم نے زمیں میں کتنے خزانے دبا دئے


بہت شکریہ! اسی شعر پر غزل کہی تھی پسندیدگی کا شکریہ

0