کتنے ہی خواب اپنے سہانے دبا دئے |
یادوں میں رہ گئے جو فسانے دبا دئے |
آئے تو تھے زمیں سے خزانے نکالنے |
ہم نے زمیں میں کتنے خزانے دبا دئے |
ماحول خوشگوار میسّر رہا مگر |
ہم نے ہی دل فریب ترانے دبا دئے |
آئے تھے اس کو ترکِ تعلق کے جو خیال |
ہر بار اُس نے کر کے بہانے دبا دئے |
مایوس جب کبھی ہوا اس کے خلوص نے |
ہمت بڑھا کے پیار سے شانے دبا دئے |
وہ مسکراہٹوں کے رہے منتظر سدا |
ہم نے بھی اشک کیسے نہ جانے دبا دئے |
ہم کو بھی بن سنور کے نکلنے کا شوق تھا |
ہم مرد تھے تو شوق زنانے دبا دئے |
جذبوں کے سامنے کبھی ٹھہری بھی ہے خرد |
طوفاں نے آکے شہر پرانے دبا دئے |
طارق ہمیں یقین تھا پھل میٹھا ہی ہو گا |
دل کی زمیں میں صبر کے دانے دبا دئے |
معلومات