یوں سنبھالوں میں کہ ماتھے پہ شکن آ نہ سکے
تیرے خوابوں میں ذرا سی بھی تھکن آ نہ سکے
میں کہ دنیا کے ہر اک دکھ سے بچاؤں تجھ کو
یعنی صیاد کوئی سمتِ چمن آ نہ سکے
چاہتا تھا کہ ترے نام پہ اک نظم کہوں
چند لفظوں میں ترے روح و بدن آ نہ سکے
تیرے لہجے نے ہمیں اردو میں استاد کیا
کیسے ممکن ہے ہمیں فہمِ سخن آ نہ سکے
اب اسامہ مِری حالت ہے پرندوں جیسی
وہ پرندے جو کبھی اپنے وطن آ نہ سکے

38