خوشی کی گھڑی ہے
عجب اک سماں ہے
کوئی بچہ بوڑھا کہ کوئی جواں ہے
ہر اک ہی یہاں ہے
خوشی ان کے چہروں سے جیسے عیاں ہے
فلک پر لگی ہیں سبھی کی نگاہیں
مرا ساتھ چاہیں مگر میں پریشاں
انہیں کیا بتاوں؟
مرا چاند تو اِس فلک پر نہیں ہے
وہ رشکِ قمر تو زمیں پر کہیں ہے
مری عید جس سے
جو میری خوشی ہے
وہی جب نہیں ہے تو کیا زندگی ہے
مری زندگی کی شروعات اس سے اسی پر ختم ہے
غمِ زندگی ہے فراقِ صنم ہے
مقدر میں میرے ستم در ستم ہے
چھلکنے کو بیتاب یہ چشمِ نم ہے
ان آنکھوں کا پانی بھلا کیسے روکوں
میں کب تک سمیٹوں یہ انمول موتی
مری چشمِ نم کے کنارے کنارے
انھی کو چھپاتے انھی کو بچاتے
کہیں بہہ نہ جائیں یہ آنسو بچارے
کوئی دیکھ لے تو
اگر پوچھ لے تو
میں کیا نام دوں گا محبت کو اپنی
یہ سب بے خبر ہیں مرے حالِ دل سے
چھپاوں تو کیسے
بتاوں تو کیسے
مبارک ہے کیسی
گلے کیا ہے ملنا
کوئی تو بتائے
کہ جب ہاتھ دل سے جدا ہو نہ پائے
مبشر کہو کیسے رسمیں نبھائے
یہ ماتم کناں عید کیسے منائے؟

20