آئے دن ان سے ملاقات ہوا کرتی تھی |
فون پر بات بھی دن رات ہوا کرتی تھی |
اب تو سمجھانے سے بھی بات سمجھتی نہیں وہ |
آنکھوں ہی آنکھوں میں جو بات ہوا کرتی تھی |
چلتے چلتے یونہی جہلم کے کنارے بیٹھے |
ہاتھوں میں ہاتھ لیے رات ہوا کرتی تھی |
شاید اب اس کا کہیں نام و نشاں باقی نہیں |
جس کے ہونے سے مری رات ہوا کرتی تھی |
اب تو اس لڑکی کی یادیں بھی نہیں میرے ساتھ |
لمحہ لمحہ جو مرے ساتھ ہوا کرتی تھی |
اب کہیں ملتا ہے تو اجنبی سا لگتا ہے |
پہلے تو اور ہی کچھ بات ہوا کرتی تھی |
عالمِ نیستی میں گم میں یہ بھی بھول گیا |
میں تھا میری بھی کوئی ذات ہوا کرتی تھی |
گزرے وقتوں میں کسی دنیا کا سورج رہا ہوں |
کہکشاں میری مرے ساتھ ہوا کرتی تھی |
میرے گاؤں میں بھی اگتی تھی پریت کی فصل |
میرے گاؤں میں بھی برسات ہوا کرتی تھی |
کبھی ان ٹوٹے چھتوں پر بھی نکلتا تھا چاند |
ہم غریبوں پہ بھی سوغات ہوا کرتی تھی |
معلومات