آئے دن ان سے ملاقات ہوا کرتی تھی
فون پر بات بھی دن رات ہوا کرتی تھی
اب تو سمجھانے سے بھی بات سمجھتی نہیں وہ
آنکھوں ہی آنکھوں میں جو بات ہوا کرتی تھی
چلتے چلتے یونہی جہلم کے کنارے بیٹھے
ہاتھوں میں ہاتھ لیے رات ہوا کرتی تھی
شاید اب اس کا کہیں نام و نشاں باقی نہیں
جس کے ہونے سے مری رات ہوا کرتی تھی
اب تو اس لڑکی کی یادیں بھی نہیں میرے ساتھ
لمحہ لمحہ جو مرے ساتھ ہوا کرتی تھی
اب کہیں ملتا ہے تو اجنبی سا لگتا ہے
پہلے تو اور ہی کچھ بات ہوا کرتی تھی
عالمِ نیستی میں گم میں یہ بھی بھول گیا
میں تھا میری بھی کوئی ذات ہوا کرتی تھی
گزرے وقتوں میں کسی دنیا کا سورج رہا ہوں
کہکشاں میری مرے ساتھ ہوا کرتی تھی
میرے گاؤں میں بھی اگتی تھی پریت کی فصل
میرے گاؤں میں بھی برسات ہوا کرتی تھی
کبھی ان ٹوٹے چھتوں پر بھی نکلتا تھا چاند
ہم غریبوں پہ بھی سوغات ہوا کرتی تھی

91