سب خانہ خراب ہو چکا ہے
اب پیار ,سراب ہو چکا ہے
جب ختم یہ باب ہو چکا ہے
تب قصہ کتاب ہو چکا ہے
اب لذَّتِ لب جدا ملے گی
اب ہونٹ شراب ہو چکا ہے
معیار کی بات رہنے دو اب
ہر پھول گلاب ہو چکا ہے
وہ کیوں ہو کسی کی زیب و زینت
جب ختم شباب ہو چکا ہے
ایسے سبھی دل دکھاتے ہیں اب
جیسے یہ ثواب ہو چکا ہے
نفرت کا بھرم ابھی ہے باقی
الفت کا حساب ہو چکا ہے
اب فاختہ آئے کیسے باہر
ہر شخص عقاب ہو چکا ہے
منزل نئی اب مجھے دکھاؤ
الفت میں جواب ہو چکا ہے
اب میرے لیے بھی کچھ تو سوچو
اب میرا بھی جاب ہو چکا ہے

0
54